29 ستمبر، 2015

عمیر ملک

کیا واقعی مریخ پر پانی موجود ہے؟

مریخ
نظام شمسی کا چوتھا سیارہ مریخ، زمانہ قدیم سے ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قدیم مصری تہذیب سے یونانی اور پھر رومی تہذیب میں بھی مریخ داستانوں اور اساطیر کا حصہ رہا ہے۔ مریخ کو ہر چند سال بعد صاف آسمان پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے قدیم رومیوں کے ہاں اس کو جنگ اور تباہی کے خدا "مارس" کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہی قدیم نام انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں اب بھی موجود ہے اور اسی کی مناسبت سے انگریزی مہینے مارچ کا نام رکھا گیا۔ 
دوربین کی ایجاد کے بعد سے ہی مریخ کی سطح کے مختلف نقشے سامنے آتے رہے۔ سولہویں اور ستارہویں صدی عیسوی میں گیلیلیو سمیت کئی لوگوں نے دوربین کی مدد سے مریخ کا مطالعہ کیا۔ مریخ کا مدار کچھ اس طرح سے ہے کہ ہر 16 یا 17 سال بعد مریخ، زمین سے اپنے قریب ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ 19ویں صدی میں ایک اطالوی ماہر فلکیات جیووانی سکیاپریلی نے دوربین کے ذریعے مریخ کا مطالعہ کیا تو اسے مریخ کی سطح پر دریاؤں یا نہروں کی طرز کے نشانات نظر آئے۔ اس نے ان "نہروں" کو زمین پہ موجود دریاؤں کے نام دیئے۔ بعد میں سکیاپریلی کی یہ نہریں نظر کا دھوکہ ثابت ہوئیں۔ تاہم 19ویں صدی کے آخر تک یہ نظریہ مقبول عام تھا کہ مریخ پہ نہ صرف پانی اور جنگلات موجود ہیں بلکہ انسانی تہذیب کی طرح وہاں ایلئن زندگی بھی موجود ہے۔ اس طرح کے نظریات کو بعد میں آنے والے ناولوں اور کہانیوں نے بھی تقویت دی جن میں ایلین خوراک کی تلاش میں مریخ سے زمین پر حملہ آور ہوتے دکھائے گئے۔ ایچ جی ویلز کی "وار آف دی ورلڈز" انہی میں سے ایک ہے۔
1960 اور 70 کی دہائی میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے میرینر مشن(Mariner Mission) کے تحت جب پہلی بار خلائی جہاز مریخ کی سطح پر اترے تو اس کے بارے میں موجود تمام پرانے تاثرات اور کہانیاں دم توڑ گئیں اور مریخ ایک سرخ، بنجر اور مردہ سیارے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔  ناسا کے بعد کے مشنز نے مریخ کی سطح کا مکمل نقشہ، اس کی مٹی میں موجود معدنیات، اس کی سطح پہ موجود پہاڑ، میدان، آتش فشاں اور برف پہ مشتمل قطب شمالی کی تفصیلات اور تصاویر اکٹھی کیں، جن سے ہمیں معلوم ہوا کہ مریخ زمین سے ملتا جلتا سیارہ ہے، تاہم پانی یا زندگی کے آثار کے شواہد کم تھے۔
مریخ پہ موجود پانی کے بہاؤ کی حالیہ تصویر۔ ماخذ: ناسا ویبسائٹ

موجودہ دور میں ناسا، یورپین خلائی ایجنسی اور بھارتی خلائی ایجنسی کے سیارچے مریخ کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ایک بار یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ مریخ پہ زندگی کے آثار اور پانی دریافت ہوئے ہیں۔ اس خبر کی وجہ وہ تصاویر ہیں جو یہ خلائی جہاز وقتا فوقتا بھیجتے رہتے ہیں۔ ان ہی تصاویر کی مدد سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مریخ کے شمالی قطب میں برف موجود ہے۔ سورج سے فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث مریخ پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے اور گرمی کا یہ موسم انتہائی چھوٹا ہوتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 150 تک پہنچ سکتا ہے۔ مریخ پہ زمین کی طرح موسم پائے جاتے ہیں، جو کہ زندگی کے وجود کیلئے اہم ہیں۔ مریخ کی سطح میں فولاد، نکل اور گندھک کی مقدار زیادہ ہے۔ اس کی سطح کا لال رنگ لوہے کو لگنے والے زنگ کی علامت ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کی فضا میں یا سطح پر پانی کبھی نہ کبھی موجود رہا ہے۔ اسی پانی کے شواہد ایک بار پھر ناسا کو ملے ہیں۔ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ مریخ پہ موسم کے بدلنے کے ساتھ یہ پانی مایع حالت میں بہتا ہوا اپنے نشانات چھوڑ گیا ہے۔ ان نشانات سے سائنسدان ایک بار پھر پُر امید ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ مفروضہ عام تھا کہ پانی کسی زمانے میں مریخ پہ موجود رہا ہے، لیکن ان نشانات سے یہ پتا چلتا ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی مریخ کی سطح پہ مایع حالت میں بہتا ہوا پانی پایا جا سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیووانی سکیاپریلی کا نقشہ درست تھا اور مریخ پر واقعی نہریں موجود تھیں۔
یہ خبر اس لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ 2020ء تک مریخ پر کئی ایک جدید ترین خلائی جہاز جائیں گے اور مزید معائنہ کریں گے۔ متحدہ عرب امارات کا "Mars Hope" مشن بھی ان میں سے ایک ہے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے کیلئے جواز بھی چاہیئے جو کہ اس حالیہ دریافت سے مل گیا ہے۔ :)
مریخ کی چٹانیں۔ مارس پاتھ فائنڈر سے لی گئی تصویر

عمیر ملک

عمیر ملک -