26 جولائی، 2015

عمیر ملک

بنیادی فرق - The Difference

ایک زمانہ تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق 'عقل' کا ہے۔ انسان کے پاس عقل جیسی نعمت  ہے جبکہ دیگر جانداروں کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ انسان کی عقل کا یہ حاصل غلط تھا۔ جانور نہ صرف عقل و فہم رکھتے ہیں بلکہ عام زندگی میں پیچیدہ، بعض اوقات انسانی صلاحیت سے زیادہ پیچیدہ ایجادات تخلیق کرتے ہیں۔ پرندے جیسا کہ 'بیّا' وغیرہ انتہائی مضبوط گھونسلے بناتے ہیں۔ اود بلاؤ پانی پہ بند باندھنے میں ماہر ہوتے ہیں اور اکثر چھوٹی ندیوں کا بہاؤ تک بدل دیتے ہیں۔ کوّے کے بارے میں حالیہ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت مختلف آلات کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ (اس تحقیق سے بہت پہلے ہم اپنی بچپن کی کتابوں میں پیاسا کوا پڑھ چکے ہیں، چلیں اب اسے سند بھی مل گئی)۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جانور آپس میں کمیونیکیٹ نہیں کر سکتے، اس لئے وہ ہماری طرح کے معاشروں میں نہیں رہتے۔ یہ بھی غلط ہے کیونکہ چیونٹی جیسے حشرات الارض بھی اس قدر پیچیدہ کالونیوں میں اکٹھے رہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ شہد کی مکھیاں بھی اس کی ایک مثال ہیں۔ آخر میں ماہر لسان اور دیگر ماہرین نے یہ نتیجہ نکالا کہ زبان انسان و حیوان کے مابین فرق کرتی ہے۔ جانور بولتے ضرور ہیں لیکن ان کے پاس خیالات کے اظہار کا آلہ یعنی زبان نہیں ہے۔ ماہرین کی اس تھیوری کا خاتمہ بھی اس وقت ہو گیا جب مختلف ماہرین نے بونوبو بندروں اور چمپینزیوں کو اشاروں کی زبان سکھا دی۔ چمپینزی ڈی این اے کے لحاظ سے انسان سے قریب ترین جاندار مانا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق بونوبو اور چمپینزی ایک ڈھائی سالہ بچے جتنی زبان سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔وہ اشاروں میں چھوٹے جملے اور باتوں کے جواب دینا سیکھ گئے تھے۔ اس ویڈیو میں آپ ایک افریقی گرے طوطے 'آئن سٹائن' کوبولتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک اور طوطے گریفِن نے نہ صرف الفاظ رٹ لئے تھے بلکہ ان الفاظ کو کسی زبان کی ووکیبلری یا ذخیرہ الفاظ کے طور پہ مختلف سوالات کے جواب  میں استعمال کرنا بھی سیکھا تھا۔ عام طور پہ گھریلو پالتو طوطوں کو چند الفاظ سکھا دیئے جاتے ہیں لیکن وہ ان کے استعمال سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر جانورعقل رکھتے ہیں، مل جل کر حل نکال سکتے ہیں، پیچیدہ جسمانی اعضاء جیسے کہ دماغ وغیرہ رکھتے ہیں تو پھر فرق کیا ہے؟

بونوبو اور چمپینزی کے تجربے سے یہ واضح ہوا تھا کہ وہ سوالوں کے جواب تو دے سکتے تھے لیکن خود سے کچھ پوچھنا یا سوال کرنا وہ نہیں سیکھ سکتے۔ جانوروں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ یہ سوچ سکیں کہ کسی دوسرے فرد کو شاید وہ پتا ہو جو اسے معلوم نہیں، اسلئے وہ سوال کرنے سے نا آشنا ہیں۔ ہر جاندار اپنے انداز میں آپس میں کمیونیکیٹ کرتا ہے لیکن انسان کے علاوہ سوال کرنے کی صلاحیت دوسرے جانداروں میں نہیں پائی جاتی۔ یہی انسانیت کا طرہ امتیاز ہے۔ انسان بذاتِ خود اس صلاحیت ، جسے تھیوری آف مائینڈ (Theory of Mind) کہا جاتا ہے، کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا بلکہ پیدائش کے بعد تقریباً چار سال کی عمر تک اس میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ اس کے بعد بچوں میں یہ صلاحیت آ جاتی ہے اور وہ اس بات کو سمجھنے لگتے ہیں کہ دوسرے افراد کے پاس بھی یہ صلاحیت موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ انہیں وہ پتا ہو جو ہمیں نہیں معلوم۔ اسی لئے تین سے چار سال کی عمر کے بعد بچے عام طور پہ بے تحاشا سوالات کرنے لگتے ہیں۔ یہی ان کے سیکھنے کا سب  سے تیز ترین وقت ہوتا ہے۔ 

اس لئے ایک بار پھر سوال کیجئے، کہ یہی ہمیں اشرف المخلوقات بناتا ہے۔

عمیر ملک

عمیر ملک -

7 تبصرے

اپنی رائے کا اظہار کیجئے
27 جولائی، 2015 کو 7:37 AM delete

سوال سوال اور صرف سوال۔ جب تک ہم میں سوال پوچھنے۔۔ سوال سوچنے کی اہلیت پیدا نہیں ہو گی ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سوال کرنا اہم ہے جواب ملنا بعد کی بات ہے۔ سوالوں کے جواب نہ ملنا ہی انسان کو مزید چلنے پر اکستا ہے اور جب اسے باہر کی دنیا سے جواب نہ ملیں تو یہ اور بھی اچھا ہے کہ پھر وہ اپنے آپ سےرجوع کرتا ہے اپنی ذات کی گہرائی میں جا کر آسمان کی وسعتوں کی جستجو کرتا ہے۔یہی وہ کھلا راز ہے،جو نہ صرف دانشوروں اور مفکرین بلکہ دنیا کے ہر تحقیق کار ہر دریافت کنندہ اور ہر سائنس دان کے فکروعمل کا پہلا پائیدان ہے۔ اور اسی عمل پر ربِ کائنات عقیدے اور ایمان سے بےنیاز ہو کر نوازتا چلا جاتا ہے اور ہم جیسے پیدائشی مومنین بس اسی سوال پر اٹکے رہ جاتے ہیں کہ اللہ تو صرف ہمارا ہے وہ کافروں پر کیوں مہربانی کرتا ہے۔
۔"سوال جواب" کے موضوع پر میں نے بہت کچھ ایسا ہی لکھا جو آپ کے اس "برین مصالحہ" کا مفہوم اور نچوڑ ہے۔ ۔یہی میرا اب تک کی سوچ کا تجزیہ ہے۔آپ کے اس مضمون نے میری خودکلامی کی تائید بھی کر دی
جزاک اللہ۔

Reply
avatar
27 جولائی، 2015 کو 2:27 PM delete

بہت بہت شکریہ نورین صاحبہ، آپ نے اتنا مفصل تبصرہ تحریر کیا اور مزید سوال کرنے کی ترغیب دی۔

Reply
avatar
27 جولائی، 2015 کو 2:35 PM delete

ذرہ نوازی ہے آپ کی۔

Reply
avatar
علی
AUTHOR
4 اگست، 2015 کو 12:18 PM delete

بہت عمدہ- ادھر تو سوال پوچھنے کی ممانعت ہے یورپ میں ملیں گےتو دو تین سوال پوچھوں گا :p

Reply
avatar
5 اگست، 2015 کو 12:28 PM delete

ادھر بھی پوچھ لیں سر، آپ نے پوری دنیا گھوم لی ہے، آپکو کسی نے کیا کہنا ہے!۔

Reply
avatar