27 جولائی، 2015

عمیر ملک

کاربن ڈیٹنگ کیا ہے؟

برمنگھم میں موجود قرآنی نسخہ
ہم سب نے کچھ روز پہلے منظر عام پہ آنے والے قدیم قرآنی نسخے کے بارے میں پڑھا یا سنا ہوگا۔ برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں سالہا سال سے موجود ان قرآنی صفحات کے بارے میں جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ ان چند نسخوں میں سے ایک کے حصے ہو سکتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں لکھے گئے تھے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ غالباً تیسرے خلیفہء راشد حضرت عثمان غنی (رض) کے زمانہ میں لکھے جانے والے قرآنی نسخوں میں سے ایک کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اس قیاس کو ایک ایسے سائنسی طریقہ سے تقویت ملی ہے جو کہ ماہرین ارضیات اور آثار قدیمہ کے ماہرین قدیم فوسل شدہ دریافتوں کی عمر کا پتا لگانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو "کاربن ڈیٹنگ" یا "کاربن 14 ڈیٹنگ"(Carbon-14 Dating) کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخ شماری آخر کیسے کام کرتی ہے؟

What is Carbon Dating?
ہماری زمین کی انتہائی بالائی فضاء میں موجود نائٹروجن گیس سورج یا دوسرے ستاروں سے آنے والی تیز اور ریڈیائی  شعاؤں (Radiations) کی وجہ سے اپنی نیوکلیائی ساخت بدل لیتی ہے اور ریڈیو ایکٹو کاربن14 کے طور پہ فضا میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ کاربن ایٹم چونکہ زیادہ دیر تک اس شکل میں نہیں رہ سکتے، اس لئے یہ آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بنا لیتا ہے۔ درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، دیگر جاندار  ان پودوں کو کھاتے ہیں، ان جانداروں کو گوشت خور جانور کھاتے ہیں، اور  اس طرح  کاربن14 ہماری فوڈ چین میں شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ اس بکری یا بھیڑ کی کھال میں بھی موجود ہے جس پہ قرآنی نسخے لکھے گئے ہوں گے۔
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ قدرتی چیزوں میں موجود انہی کاربن ایٹموں کی تعداد کے حساب سے یہ اندازہ لگاتی ہے کہ اس مادے کو ڈی کمپوز  ہوتے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہوگا۔ فضا میں ہر گیس کا ایک خاص تناسب ہوتا ہے، اور یہ خاص تناسب کم و بیش ہمیشہ ایک سا رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم اس فضا میں سانس نہ لے سکیں۔ سانس کے ذریعے ہوا کا یہ خاص تناسب سب جانداروں میں  یکساں موجود ہے۔ جب کوئی جاندار مر جاتا ہے تو کیمیائی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور یہ تناسب بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ریڈیو ایکٹو  عناصر ایک خاص تناسب سے ڈی کمپوز ہوتے ہیں۔ ان کے ڈی کمپوز ہونے کا یہ عمل وقت کے ساتھ منسلک ہے، یعنی ایک خاص عرصے میں ایک خاص مقدار ہی ڈی کمپوز ہوگی۔ اس طرح جب کسی مادے میں موجود ریڈیو ایکٹو کاربن کے ایٹموں کا تناسب دیکھا جاتا ہے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مادے کو گلتے سڑتے کتنا وقت گزر گیا ہے۔ اسی محتاط اندازے کو ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کہا جاتا ہے۔

کاربن ڈیٹنگ کس حد تک قابل اعتبار ہے یا یہ کتنی پرانی اشیاء کی عمر بتا سکتی ہیں؟ گو کہ اس بارے میں بہت سے لوگوں کو تحفظات ہیں کہ کاربن ڈیٹنگ کا طریقہ کار سرے سے قابل اعتبار ہے بھی کہ نہیں، لیکن سائنسدانوں کی اکثریت اس طریقے کار کو درست مانتی ہے اور اگر نمونے کی مقدار اور کوالٹی اچھی ہو تو تقریباً 95 فیصد درست نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے کہ کتنے سال پرانے نمونے پرکھے جا سکتے ہیں تو  اس کا تعلق بھی ریڈیو ایکٹو کاربن 14 سے ہے۔ کیونکہ اس کے ختم ہونے کا ایک وقت ہے، موجودہ ہوا کے تناسب کے مطابق تقریباً 50 ہزار سال پرانے نمونے کو ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پرانے مادے میں چونکہ کاربن کم سے کم ہوتا چلا جائے گا، اس لئے اندازہ بھی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گا۔
بہرحال، قرآن پاک کے نسخے کیلئے یہ  کافی قابل اعتبار ہے، کیونکہ اس کی عمر ڈیڑھ ہزار سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ کاربن  ڈیٹنگ کے مطابق جس کھال پہ وہ لکھے گئے ہیں،  اسے تقریباً 568 عیسوی سے 645 عیسوی کے درمیان شمار کیا گیا ہے۔ یعنی اس نسخے کی عمر کم سے کم بھی تقریباً 1370 سال ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ یہ مقدس صفحات رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی تحریر کئے گئے ہوں۔

عمیر ملک

عمیر ملک -

1 تبصرے:

اپنی رائے کا اظہار کیجئے