19 اگست، 2017

عمیر ملک

سورج گرہن


1999 کا سورج گرہن (تصویر: وِکی کامنز)
سورج گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، جب چاند زمین اور سورج کے درمیان آتا ہے۔ یوں تو چاند ہر مہینے زمین اور سورج کے درمیان آتا ہے لیکن اس کا مدار بیضوی اور زمین کے مقابل ذرا سا (تقریبا 5 ڈگری) تِرچھا ہونے کی وجہ سے، عام طور پہ، اس کا سایہ زمین پہ نہیں پڑتا۔ زمین اور چاند اپنی گردش کے دوران جب بھی ایک دوسرے کے برابر  آتے ہیں، تب زمین سے سورج یا چاند گرہن نظر آتا ہے۔ ایک سال میں کم از کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 5 بار سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے۔ مکمل سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند سورج کو مکمل طور پہ چُھپا دیتا ہے۔ چاند، سورج کے مقابلے میں چار سو گنا چھوٹا ہے لیکن سورج، چاند کے مقابلے میں زمین سے تقریبا چار سو گنا زیادہ فاصلے پہ ہے۔ اسی تناسب کی وجہ سے زمین سے دونوں تقریباً ایک سائز کے دکھائی دیتے ہیں۔ چاند کے بیضوی مدار  کے باعث، مکمل سورج گرہن کے وقت چاند زمین سے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے اور سورج سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے اور اسے مکمل چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں

10 نومبر، 2016

عمیر ملک

ہائپر لوپ کیا ہے؟

ہائپر لوپ کا تصوراتی خاکہ (تصویر: وکیپیڈیا)۔
ہائپر لُوپ، ایک (فی الحال) تصوراتی نظام آمد و رفت ہے جس کا تصور ٹیسلا موٹرز اور سپیس ایکس کے سی ای او ایلان مسک نے چند سال پہلے پیش کیا تھا۔ اس نظام میں ریل کی بوگی پٹری پر دوڑنے کی بجائے ایک ٹیوب میں سفرکرے گی۔ بوگی یا جدید زبان میں پوڈ pod یا کیپسول capsule پہیوں کی بجائے پریشرائزڈ ہوا کے دوش پرسفر کریں گے، یعنی کہ کیپسول اور ٹیوب میں کسی قسم کی رگڑ نہیں ہوگی۔ ٹیوب میں ہوا کا دباؤ قدرتی دباؤ سے کم رکھا جائے گا، تا کہ کیپسول کو ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ ان بوگیوں کے نیچے پہیوں کی جگہ پریشرائزڈ ہَوا ایک طرح کا پیڈ یا کُشن بنائے گی اور ان میں لگے طاقتور ایئر کمپریسر کیپسول کے سامنے سے ہوا کا دباؤ کم کریں گے جس سے کیپسول آگے بڑھے گا۔ انجن کے طور پہ ابھی تک کئی ایک متبادل ٹیکنالوجیز استعمال کی جا سکتی ہیں مثلاً بجلی یا معلق مقناطیس۔ اس نظام کے ذریعے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچا جا سکتا ہے۔
ٹیوب اور کیپسول کا تصوراتی خاکہ، کیپسول کے پچھلے حصے میں پاور کمپارٹمنٹ سے، درمیان میں مسافر خانہ اور آگے ایئر کمپریسر (تصویر: وکیپیڈیا)۔
اس قسم کے تصوراتی اور فیوچرسٹک یا مستقبل نما قسم کے نظام آمد و رفت اس سے پہلے بھی منظر عام پہ آ چکے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر میں سائنسدانوں اور انجینئروں نے انجن کی بجائے ہوا کے دباؤ سے چلنے والی ریل گاڑیوں کے کئی تجربے کئے لیکن کوئی بھی بڑے پیمانے پر کامیاب نہ ہو سکا۔ البتہ انہی تجربوں کی بنیاد پہ موجودہ صدی میں کئی ایک ایسے منصوبے کامیابی سے تکمیل کئے جا چکے ہیں جو ریل گاڑی کے برعکس پہیوں اور پٹری کی رگڑ کے بغیر ہیں۔ مثال کے طور پہ میگ لیو(MagLev) ٹیکنالوجی جو ریل گاڑی کو مقناطیس کی مدد سے ہوا میں معلق کر دیتی ہے اور پھر اس کو دھکیلا جاتا ہے۔ چین میں موجود شنگھائی مقناطیسی معلق ریل یا ٹرانس ریپڈ اب تک کی تیز رفتار ترین ریل ہے، جو تقریباً 430 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک جاتی ہے۔ اس مقناطیسی ٹیکنالوجی میں پاور کا تصرف بہت زیادہ ہے، جو اسے مہنگا بناتا ہے۔
ہائپرلُوپ کا موجودہ تصور رفتار، پاور کے تصرف اور محفوظ سفر کو ذہن میں رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس تصور کو عملی طور پہ کارآمد بنانے کیلئے فی الحال دنیا بھر میں کئی ٹیکنالوجی کمپنیاں اور آزاد تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک "ہائپر لُوپ وَن" نے حال ہی میں دبئی کی وزارت آمد ورفت سے معاہدہ کیا ہے۔ جس کے تحت دبئی سے ابو ظہبی تک ہائپر لُوپ ٹریک بنائے جانے کی ممکنات کو جانچا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق ہائپر لوپ کے ذریعے یہ سفر صرف 12 منٹ میں طے کیا جا سکتا ہے۔
ہائپر لوپ ٹرانسپورتیشن ٹیکنالوجیز کا تصوراتی خاکہ

مزید پڑھیں

5 نومبر، 2016

عمیر ملک

کیا آسمان واقعی نیلا ہے؟

نیلا آسمان
کیا آسمان واقعی نیلا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم "آسمان" کس کو کہتے ہیں۔ سورج، چاند، زمین اور دیگر تمام اجسامِ فلکی خلاء میں گردش کررہے ہیں۔ خلاء بذات خود جیسا کہ نام سے ظاہر ہے "کچھ نہیں" ہے یعنی کہ کچھ بھی نہیں! لیکن مختلف اجسامِ فلکی جیسا کہ سیاروں اور ستاروں وغیرہ کے گرد  ان کی اپنی ایک فضاء موجود ہوتی ہے۔ یہ فضاء اس ستارے یا سیارے پہ موجود عناصر ہی پہ مشتمل ہوتی ہے جو کشش ثقل کے باعث اس کے گرد ایک غلاف سا بنا لیتے ہیں۔ سطح کے قریب یہ فضاء کثیف ہوتی ہے اور جیسے جیسے سطح سے بلند ہوتے جائیں تو یہ فضاء پتلی ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک خاص فاصلے سے آگے بالکل ختم ہو جاتی ہے اور خلاء شروع ہو جاتی ہے۔ زمین پہ ہم فضاء کی اس تبدیلی کو بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پہ محسوس کر سکتے ہیں، جہاں کوہ پیما فضاء کی کم کثافت کے باعث عام طور پہ سانس کی دشواری سے بچنے کیلئے آکسیجن ساتھ لے جاتے ہیں۔
 (تصویر: وکی کامنز)بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے لی گئی زمین کی نیلی فضاء کی تصویر

آسمان دراصل زمین کی اسی فضاء کو کہا جاتا ہے۔ اور اس فضاء میں آکسیجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر دوسری گیسوں کا مجموعہ یعنی کہ "ہوا" موجود ہے۔ سورج کی روشنی جب اس فضاء میں داخل ہوتی ہے تو فضاء میں موجود ان گیسوں سے ٹکراتی ہے۔ روشنی بذات خود کئی مختلف رنگوں سے مل کر بنتی ہے لیکن جب یہ سب رنگ اکٹھے ہوں تو سفید نظر آتی ہے۔ یہ سفید روشنی جب ہوا کے ذرات سے ٹکراتی ہے تو مختلف سمتوں میں بکھر جاتی ہے۔ ہماری زمین کی فضاء کے ذرات اس طرح سے ہیں کہ وہ نیلی شعاؤں کو زیادہ بکھیرتے ہیں اور دیگر رنگوں کی شعائیں ان کی نسبت کم بکھرتی ہیں۔ نیلی شعاؤں کے بکھرنے سے ہمیں ساری فضاء نیلی دکھائی دیتی ہے۔ اسی نیلی روشنی کے باعث ہمیں "آسمان" میں موجود دیگر ستارے بھی نظر نہیں آتے۔ رات کو سورج کی روشنی نہیں ہوتی، اسی وجہ سے فضاء نیلی نہیں دکھائی دیتی اور ہم فضاء سے آگے موجود خلاء میں چمکتے ستارے اور چاند دیکھ پاتے ہیں۔ یہی فضاء اور روشنی کا بکھرنا افق کے سرخ رنگ اور سورج کے زرد دکھئی دینے کی وجہ بھی ہے۔ اصل میں سورج بالکل سفید ہے۔
ہمارے چاند کے گرد کوئی فضاء نہیں ہے۔ جس کے باعث چاند سے آسمان ہمیشہ سیاہ دکھائی دیتا ہے اور سورج ایک انتہائی روشن سفید طشتری کی مانند دکھتا ہے۔ مارس یا مریخ کی فضاء زمین سے مختلف ہے، اس لیے وہاں دن کے وقت آسمان یا فضاء کا رنگ زنگ آلود یا سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔ 
چاند کی سطح سے دن کے وقت زمین کا نظارہ۔ فضاء کے فقدان کے باعث آسمان بالکل سیاہ ہے۔

مریخ کی فضاء دوپہر کے وقت۔ (تصویر: وکی کامنز)۔



مزید پڑھیں

4 نومبر، 2016

عمیر ملک

سموگ کیا ہے؟

سموگ کیسے پیدا ہوتی ہے
سموگ یا "دُھندواں" فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ یہ دھند اور دُھویں کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے۔  موسم سرما میں زمین کی فضاء کا نچلا حصہ ، اوپری حصے سے زیادہ سرد ہو جاتا ہے، جو کہ دھند کا باعث بنتا ہے۔ بعض اوقات حرارت کا یہ فرق بڑھ جاتا ہے اور فضاء کا بالائی گرم حصہ ایک حصار سا بنا لیتا ہے جو کہ ٹھنڈی ہوا کو (دھند کی شکل میں ) نیچے روکے رکھتا ہے۔ اس عمل کو موسمیات کی زبان میں "انعکاسِ حرارت" یا Inversion کہا جاتا ہے۔  نچلی فضاء میں یہ قدرتی دھند جب دیگر  مصنوعی عناصر، مثال کے طور پہ فضائی آلودگی، گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں، بڑے پیمانے پہ لگنے والی آگ وغیرہ، سے ملتا ہے تو دھند کی یہ تہہ دبیز ہوتی چلی جاتی ہے اور "دُھندواں" یا سموگ جنم لیتی ہے۔

 بڑے شہروں میں چونکہ فضائی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لئے دھندواں یا سموگ زیادہ شدید صورت اختیار کر لیتا ہے۔ دنیا کے چند بڑے شہر ہر سال شدید سموگ کی لپیٹ میں آتے ہیں جن میں لاس اینجلیس، بیجنگ، میکسیکو شہر،تہران اور دہلی سر فہرست ہیں۔ بیجنگ شہرمیں سموگ (دائیں) اور بارش کے بعد (بائیں) کا ایک منظر۔
 ۔(تصویر: وکی) بیجنگ میں سموگ (دائیں) اور بارش کے بعد(بائیں) کا منظر

ماضی میں کوئلے سے چلنے والی فیکٹریوں اور عمارتوں کو گرم رکھنے کیلئے جلائے جانے والے ایندھن کے باعث پیدا ہونے والی لندن شہر کی سموگ شہرت کی حامل رہی ہے۔ بیسویں صدی کے نصف تک لندن موسم سرما میں شدید سموگ کا شکار رہا ہے۔ دسمبر 1952 میں پیدا ہونے والی سموگ اتنی کثیف اور شدید تھی کہ کئی دن تک لندن سموگ میں ڈوبا رہا۔ فضائی آلودگی اس حد تک خطرناک اور کثیف ہو گئی کہ تقریبا 4 ہزار لوگوں کی جانیں اس سموگ کی نذر ہوئیں۔
لندن۔ دسمبر 1952 (تصویر: ہفنگٹن پوسٹ)۔

حالیہ چند برسوں میں پاکستان کے کئی شہروں میں فضائی آلودگی کا تناسب تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کے حوالے سے ناقص قانون سازی یا قوانین کا اطلاق نا ہونا ہے۔ 
لاہور شہر اس وقت شدید سموگ کی لپیٹ میں ہے اور آنے والے دنوں میں یہ دھندواں ماحول برقرار رہے گا۔  دھند ایک قدرتی عمل ہے لیکن فضائی آلودگی اس قدرتی عمل کو خطرناک بنا دیتی ہے۔ اگر فضائی آلودگی پہ قابو پا لیا جائے تو ہوا کے اندرونی دباؤ یا بارش سے گرم ہوا کا یہ حصار خودبخود  ٹوٹ جاتا ہے اور دھند چھٹ جاتی ہے۔
لاہور (تصویر: ڈوئچے ویلے)۔


مزید پڑھیں

29 ستمبر، 2015

عمیر ملک

کیا واقعی مریخ پر پانی موجود ہے؟

مریخ
نظام شمسی کا چوتھا سیارہ مریخ، زمانہ قدیم سے ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قدیم مصری تہذیب سے یونانی اور پھر رومی تہذیب میں بھی مریخ داستانوں اور اساطیر کا حصہ رہا ہے۔ مریخ کو ہر چند سال بعد صاف آسمان پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے قدیم رومیوں کے ہاں اس کو جنگ اور تباہی کے خدا "مارس" کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہی قدیم نام انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں اب بھی موجود ہے اور اسی کی مناسبت سے انگریزی مہینے مارچ کا نام رکھا گیا۔ 
دوربین کی ایجاد کے بعد سے ہی مریخ کی سطح کے مختلف نقشے سامنے آتے رہے۔ سولہویں اور ستارہویں صدی عیسوی میں گیلیلیو سمیت کئی لوگوں نے دوربین کی مدد سے مریخ کا مطالعہ کیا۔ مریخ کا مدار کچھ اس طرح سے ہے کہ ہر 16 یا 17 سال بعد مریخ، زمین سے اپنے قریب ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ 19ویں صدی میں ایک اطالوی ماہر فلکیات جیووانی سکیاپریلی نے دوربین کے ذریعے مریخ کا مطالعہ کیا تو اسے مریخ کی سطح پر دریاؤں یا نہروں کی طرز کے نشانات نظر آئے۔ اس نے ان "نہروں" کو زمین پہ موجود دریاؤں کے نام دیئے۔ بعد میں سکیاپریلی کی یہ نہریں نظر کا دھوکہ ثابت ہوئیں۔ تاہم 19ویں صدی کے آخر تک یہ نظریہ مقبول عام تھا کہ مریخ پہ نہ صرف پانی اور جنگلات موجود ہیں بلکہ انسانی تہذیب کی طرح وہاں ایلئن زندگی بھی موجود ہے۔ اس طرح کے نظریات کو بعد میں آنے والے ناولوں اور کہانیوں نے بھی تقویت دی جن میں ایلین خوراک کی تلاش میں مریخ سے زمین پر حملہ آور ہوتے دکھائے گئے۔ ایچ جی ویلز کی "وار آف دی ورلڈز" انہی میں سے ایک ہے۔
1960 اور 70 کی دہائی میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے میرینر مشن(Mariner Mission) کے تحت جب پہلی بار خلائی جہاز مریخ کی سطح پر اترے تو اس کے بارے میں موجود تمام پرانے تاثرات اور کہانیاں دم توڑ گئیں اور مریخ ایک سرخ، بنجر اور مردہ سیارے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔  ناسا کے بعد کے مشنز نے مریخ کی سطح کا مکمل نقشہ، اس کی مٹی میں موجود معدنیات، اس کی سطح پہ موجود پہاڑ، میدان، آتش فشاں اور برف پہ مشتمل قطب شمالی کی تفصیلات اور تصاویر اکٹھی کیں، جن سے ہمیں معلوم ہوا کہ مریخ زمین سے ملتا جلتا سیارہ ہے، تاہم پانی یا زندگی کے آثار کے شواہد کم تھے۔
مریخ پہ موجود پانی کے بہاؤ کی حالیہ تصویر۔ ماخذ: ناسا ویبسائٹ

موجودہ دور میں ناسا، یورپین خلائی ایجنسی اور بھارتی خلائی ایجنسی کے سیارچے مریخ کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ایک بار یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ مریخ پہ زندگی کے آثار اور پانی دریافت ہوئے ہیں۔ اس خبر کی وجہ وہ تصاویر ہیں جو یہ خلائی جہاز وقتا فوقتا بھیجتے رہتے ہیں۔ ان ہی تصاویر کی مدد سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مریخ کے شمالی قطب میں برف موجود ہے۔ سورج سے فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث مریخ پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے اور گرمی کا یہ موسم انتہائی چھوٹا ہوتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 150 تک پہنچ سکتا ہے۔ مریخ پہ زمین کی طرح موسم پائے جاتے ہیں، جو کہ زندگی کے وجود کیلئے اہم ہیں۔ مریخ کی سطح میں فولاد، نکل اور گندھک کی مقدار زیادہ ہے۔ اس کی سطح کا لال رنگ لوہے کو لگنے والے زنگ کی علامت ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کی فضا میں یا سطح پر پانی کبھی نہ کبھی موجود رہا ہے۔ اسی پانی کے شواہد ایک بار پھر ناسا کو ملے ہیں۔ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ مریخ پہ موسم کے بدلنے کے ساتھ یہ پانی مایع حالت میں بہتا ہوا اپنے نشانات چھوڑ گیا ہے۔ ان نشانات سے سائنسدان ایک بار پھر پُر امید ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ مفروضہ عام تھا کہ پانی کسی زمانے میں مریخ پہ موجود رہا ہے، لیکن ان نشانات سے یہ پتا چلتا ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی مریخ کی سطح پہ مایع حالت میں بہتا ہوا پانی پایا جا سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیووانی سکیاپریلی کا نقشہ درست تھا اور مریخ پر واقعی نہریں موجود تھیں۔
یہ خبر اس لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ 2020ء تک مریخ پر کئی ایک جدید ترین خلائی جہاز جائیں گے اور مزید معائنہ کریں گے۔ متحدہ عرب امارات کا "Mars Hope" مشن بھی ان میں سے ایک ہے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے کیلئے جواز بھی چاہیئے جو کہ اس حالیہ دریافت سے مل گیا ہے۔ :)
مریخ کی چٹانیں۔ مارس پاتھ فائنڈر سے لی گئی تصویر

مزید پڑھیں

1 ستمبر، 2015

عمیر ملک

قدرت، معاشرہ اور عورت


عورت اور مرد میں جنس کی بنیاد پہ تفریق قدیم ترین انسانی معاشرے کی جڑ ہے۔ معاشرے کی بنیاد دونوں اجناس کے سوسائٹی میں رول ڈیفائن کرنے سے ہی شروع ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ معاشرے میں دونوں کے الگ الگ رول ہی اس انسانی سوسائٹی کی بنیاد بنے۔ جس میں مادہ بچوں کی پیدائش کی وجہ سے، عارضی طور پہ ہی سہی لیکن شکار کرنے یا اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں تھی۔ نر اپنی قوت بازو کے باعث شکار کیلئے باہر نکل سکتا تھا اور یوں جینڈر رولGender Role  قدرت نے ڈیفائن کر دیے۔ مادہ پہ کسی بھی نوع کی بقا کا انحصارہوتا ہے اسلئے اسے خطرے میں ڈالنا نا مناسب تھا سو اس کے لئے گھر منتخب ہوا۔ حیاتیات کی رُو سے نر محض زندگی کی بقا میں استعمال ہونے والا ایک آلہ ہے، لہٰذا اسے خطرے میں ڈالنا اور باہر کی دنیا کے سپرد کرنا قابل فہم تھا۔
مزید پڑھیں

27 جولائی، 2015

عمیر ملک

کاربن ڈیٹنگ کیا ہے؟

برمنگھم میں موجود قرآنی نسخہ
ہم سب نے کچھ روز پہلے منظر عام پہ آنے والے قدیم قرآنی نسخے کے بارے میں پڑھا یا سنا ہوگا۔ برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں سالہا سال سے موجود ان قرآنی صفحات کے بارے میں جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ ان چند نسخوں میں سے ایک کے حصے ہو سکتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں لکھے گئے تھے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ غالباً تیسرے خلیفہء راشد حضرت عثمان غنی (رض) کے زمانہ میں لکھے جانے والے قرآنی نسخوں میں سے ایک کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اس قیاس کو ایک ایسے سائنسی طریقہ سے تقویت ملی ہے جو کہ ماہرین ارضیات اور آثار قدیمہ کے ماہرین قدیم فوسل شدہ دریافتوں کی عمر کا پتا لگانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو "کاربن ڈیٹنگ" یا "کاربن 14 ڈیٹنگ"(Carbon-14 Dating) کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخ شماری آخر کیسے کام کرتی ہے؟
مزید پڑھیں